اسلام آباد،24اگست(ایس او نیوز/آئی این ایس انڈیا)پاکستان میں ایک تحقیق کے مطابق پینے کے صاف پانی میں خطرناک زہریلے مادے سنکھیا کی انتہائی زیادہ مقدار کی موجودگی سے چھ کروڑ شہریوں کی زندگیوں کو خطرات لاحق ہیں۔عالمی ادارہئ صحت ڈبلیو ایچ او کی جانب سے پاکستان بھر میں حاصل کردہ زیرزمین پانی کے 12سو نمونوں کی جانچ سے معلوم ہوا ہے کہ ان میں زہریلا مادہ سنکھیا زیادہ مقدار میں موجود ہے۔
سنکھیا یا آرسنک دراصل ایک معدن ہے۔ یہ بے ذائقہ ہوتا ہے اور گرم پانی میں حل ہوجاتا ہے اور ہلاک کرنے کے لیے اس کے ایک اونس کا سوواں حصہ بھی کافی ہوتا ہے۔طویل عرصے تک سنکھیا ملا پانی استعمال کرنے کے نتیجے میں خطرناک بیماریاں لاحق ہو سکتی ہیں۔ان میں جلد کی بیماریاں،پھیپھڑوں اور مثانے کا سرطان اور دل کے امراض لاحق ہو سکتے ہیں۔
ڈبلیو ایچ او کے مطابق دنیا بھر میں 15کروڑ افراد کا انحصار زیر زمین اس پانی پر ہے جس میں سنکھیا پایا جاتا ہے۔
ڈبلیو ایچ او کے معیار کے مطابق ایک لیٹر پانی میں سنکھیا کی زیادہ سے زیادہ مقدار 10مائیکرو گرام ہونی چاہیے جبکہ حکومت پاکستان کی جانب سے مقرر کردہ معیار کے مطابق یہ شرح 50مائیکروگرام تک قابل قبول ہے۔تحقیق کے مطابق پاکستان کے مشرقی علاقوں یا دریائے سندھ کے ساتھ میدانی علاقوں میں رہائش پذیر پانچ سے چھ کروڑ افراد پینے کے لیے وہ پانی استعمال کر رہے ہیں جس میں حکومت کی مقرر کردہ مقدار سے زیادہ سنکھیا ہو سکتا ہے۔
سائنس دانوں نے ملک بھر میں مختلف مقامات سے پینے کا صاف پانی حاصل کرنے نکلوں، کنوؤں سے 12سو نمونے حاصل کیے اور شماریات کا طریقہئ کار استمعال کرتے ہوئے نقشے مرتب کیے اور ان کی مدد سے اندازہ لگایا کہ اس خطرے سے کتنی آبادی متاثر ہو سکتی ہے۔سوئس فیڈرل انسٹی ٹیوٹ آف ایکوٹک سائنس سے منسلک اس تحقیق کے سربراہ ڈاکٹر جول پٹکوسکی نے بی بی سی کو بتایا کہ تحقیق کے نتائج پریشان کن ہیں۔ہم پہلی بار پاکستان میں اس مسئلے کی شدت کو دکھانے میں کامیاب ہوئے ہیں کیونکہ جیالوجی اور زمینی مادوں اور دیگر پیمائشوں کی مدد سے اندازہ ہوا کہ دریائے سندھ کے ساتھ میدانی علاقوں کے زیر زمین پانی میں سنکھیا کی انتہائی زیادہ مقدار موجود ہے۔سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ کاشت کاری کے لیے پانی کے استعمال نے صورتحال کو مزید خراب کر دیا ہے۔تحقیق میں سنکھیا اور مٹی میں پائی جانے والی تیزابیت کے درمیان مضبوط باہمی تعلق کا اندازہ بھی ہوا ہے۔
ڈاکٹر جول کے مطابق وادی مہران میں بڑے پیمانے پر کاشت کاری کے لیے پانی استمعال کیا جاتا ہے اور یہاں کا موسم بہت گرم اور خشک ہے۔ اگر آپ سطح پر بہت زیادہ پانی بہا رہے ہیں تو یہ جب زمین میں جذب ہو گا تو آسانی سے سنکھیا کو اپنے ساتھ زیرزمین پانی میں ملا دے گا۔یونیورسٹی آف مانچیسٹر میں ماحولیاتی کمیسٹری کے پروفیسر ڈیوڈ پولایا کا کہنا ہے کہ 'اعداد و شمار پر قابل ذکر حد تک غیر یقینی پائی جاتی ہے، اگر جتنی آبادی کو خطرہ لاحق بتایا گیا ہے اس کا نصف بھی ہو تو اس سیگذشتہ چند دہائیوں میں سامنے آنے والے رجحان کا اندازہ ہوتا ہے جس میں ایک ایسے لوگوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے جنھیں سنکھیا ملے پانی سے خطرہ لاحق ہے۔انھوں نے کہا ہے کہ اس طرح کی جامع تحقیقات دوسرے علاقوں میں بھی ہونی چاہیے اور اس سے کوئی شک نہیں کہ پینے کے پانی میں اس زہریلے مادے سے متاثرہ افراد کی تعداد بڑھے گی۔ڈبلیو ایچ او کے پروفیسر ریک جانسٹن کے مطابق' نئی تحقیق میں سنکھیا کی پانی میں ملاؤٹ کی شرح کے بارے میں معلومات حاصل ہوئی ہیں اور یہ نہ صرف پاکستان بلکہ پانی کے دیگر شعبوں کے لیے بھی فائدہ مند ہوں گی۔